Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ

 By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar



صفحہ نمبر۔۱  

Novel


انوکھا    رشتہ

۲    ۔جنوری

صبح کے چار بجے دادی جان کمرے میں آئی۔ میں اور عامیہ ایک ہی بیڈ پر سو رہے تھے۔ دادی جان نے مجھے  آواز   دی۔

 '' عانشہ بیٹا  اُٹھ جاؤ۔  آج سکول میں تمھارا  پہلا  انٹرویو ہے،  اُٹھو نماز پڑھو،  اللہ سے  دعا کرو ،  کہ اللہ تمھیں کامیاب کرے۔ چلو  آ جاؤ۔  شاباش :  تیری ماں نیچے میرا  انتظار  کر رہی ہے۔ ہم نماز پڑھنے لگے ہیں۔ ''

یہ کہہ کر  دادی جان  نیچے  چلی گئی۔ میں نے سوچا  اگر  میں نیچے  نہ گئی  تو  ماں  نے گھر سر پر اُٹھا  لینا  ہے ۔ میں جلدی سے اُٹھی ، وضو کیا  پھر سوچا  عامو کو بھی ساتھ نماز میں شامل کرتی ہوں،  عامو  کا  بھی تو  آج  کالج  میں پہلا دن ہے ۔  میں نے  عامو  کو ہاتھ لگا کر کہا:

'' عامو  اُٹھو  صبح  کے چار بج  گئے  ہیں ۔  آج  کالج  میں تمہارا   پہلا  دن ہے۔ جلدی سے  اُٹھ جا ؤ۔  ورنہ  ماں  ڈانٹ لگائے گی۔''

میں نے دو تین با ر ہاتھ لگایا تو عامو نے بس اتنا کہا : '' ڈانٹ کا کیا ہے عانشی  جہاں اتنی پڑتی ہے وہاں  تھوڑی اور پڑ جائے گی، پلیز مجھے سونے دو،   میری نیند خراب نہ  کرو ۔''

 یہ کہہ کر عامو پھر سو گئی ۔ میں نے سوچا کہ ماں اوپر آئے ، اُن کے آنے سے پہلے  میں ہی نیچے چلی  جاتی ہوں ، اور جلدی سے نماز پڑھتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ آج میری جاب ہو جائے تو مزہ  آ جائے گا ۔   اور  پھر میں اللہ سے کہتی ہوں :   اے اللہ آج اگر میری جاب ہو جاتی ہے تو میں پورے ایک سو روپے مسجد کے غلے میں ڈالوں گی۔  پلیز آج میری جاب ہو جائے ۔ یہ کہتے ہوئے میں  نیچے  آ رہی تھی  کہ سامنے  سے ماں میری یہ باتیں سن کر  ہنس رہی تھی۔ تب میں نے دیکھا ،  ماں کی  آنکھیں نم تھیں۔  اُن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو  آگئے۔ میں تیزی  سے بھاگتی ہوئی آئی اور ماں کے گلے لگ گئی۔

   ماں نے پوچھا: '' میری  آنکھیں تو خوشی سے نم ہیں ۔ تم کیوں  رو  رہی ہو؟  کیا ہوا ؟  ''

میں نے جواب دیا: '' میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی، یہ بات آپ اچھے سے جانتی ہیں۔ ماں کیا بات ہے؟  کچھ ہوا ہے کیا؟  آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟  ''

 ماں نے کہا : ''عانشی تم  پریشان کیوں  ہو رہی ہو۔  ایسا کچھ بھی نہیں ہے،  میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ بلکہ  میں تو  آج بہت  زیادہ خوش ہوں ، آج میری عانشی کا پہلا انٹرویو ہے ۔ میری عانشی جوان ہو گئی ہے۔''

 پاس  ہی  دادی جان  بھی کھڑی  تھی۔

  ماں نے کہا: " دیکھو ماں آ ج میری بیٹی کا پہلا انٹرویو ہے ۔"

 دادی جان نے کہا : '' کوشی پُتر  تیری برسوں کی محنت رنگ لے آئی۔  مجھے تجھ پر اور تیری پرورش پر ناز ہے ۔ جو کام میرا بیٹا نہ کر سکا وہ تُو نے اکیلی نے کر دیکھایا ۔"

 میں نے دادی جان سے کہا: " دادی جان اگر آج پاپا  ساتھ ہوتے   تو  کتنا خوش ہوتے ۔"   

By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar 


 صفحہ نمبر۔۲


Comments

Popular posts from this blog

Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ

زندگی کا سفرZindagi ka Safar

Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ