By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar صفحہ نمبر۔۳ Novel انوکھا رشتہ :میں نے عامو کو پیار سے دیکھا اور جو پیسے میرے پاس تھے وہ میں نے عامو کو دے دئیے اور کہا " یہ لو پیسے ، میری اگر آج جاب ہو گئی تو میں وعدہ کرتی ہوں تمہیں الگ سے پیسے دیا کروں گی۔ تُو بس دعا کر اللہ سے" عامو نے کہا : " کیسی بات کر رہی ہو یار ، کیا بھلا میں بھی تیرے لیئے دعا نہیں کرتی۔ میں تو تیرے لئیے دعا خودسےپہلے کرتی ہوں۔" میں نے عامو سے کہا: " اوہ ! نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ مجھے پتا ہے کہ تُو میرے سے بہت پیار کرتی ہے۔ تجھے ایک بات اور بتاتی ہوں اگر جاب ہو گئی تو میں ساتھ میں ٹیوشن سنٹر بنا لوں گئی ۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ پیسے زیادہ آئیں گے۔ " عامو نے جواب دیا: " عانشی اللہ پاک ہمارا ساتھ ضرور دیں گے انشااللہ ، بس آپ ہمت نا ہارنا ۔" میں نے عامو کو جتنے پیسے دیئے اُن میں سے عامو نے ۳۰۰ روپے رکھے بس اور ساتھ یہ کہتی ہے۔ " عانشی آپ کو بھی تو آج پیسوں کی ضرورت ہے باقی پیسے آپ لے جاؤ۔" آج مجھے عامو پے بڑا ناز آ رہا تھا ۔ آج تو میری عامو سمجھدار ہ...
By Sardar Ali Nawaz Anwar وہ بچپن اور اس کے حسین دن ماں کا خوبصورت آنچل- محسوس کریں تو لگتا ہے جیسے جنت ہو زندگی کے پہلے دس سال ہے اک نڈرسا سفر قرآن کی تعلیم بخشتی ہے ایک الگ سا سکون یوں مہمانوں کا آنا اور پیار کا نذرانہ دینا ان کی مخلصی کا دیتا ہے ثبوت بابا کا انتظار اور بڑھ جاتا ہے پیار ان کا گھر آنا اور یوںشفقت سے پیش آنا ہزار شکایتیں ہوں تو سن لیتے ہیں ایک ہی بار سکول کا وہ خوبصورت سا وقت مختلف کھیلوں میں یوں کھو جانا ایسا لگتا ہے جیسے دوستوں میں ہو زندگی وہ کالج کا پہلا دن، نا پتا تھا زندگی ہے کیا پر کچھ پرانے چہرے ہوئے دور جگہ لے لی کچھ نئے چہروں نے لگاتے ہیں جو نئے کاموں میں، کچھ اچھے کچھ برے نہ عزت کی پرواہ نہ اپنے پن کا احساس پھر کیوں ہوتے ہیں کچھ ایسے فرینڈز جوانی کا وہ سنہرا سا سفر بہت لوگوں کا زندگی میں آنا اور ان ہی کا ہو کر رہ جانا محبت دل میں جگائے نفرت سے کوسوں دور پھر اس سنگ دل دنیا سے یوں ہمارا واسطہ پڑنا یوں دنیا کو اپنا اصلی چہرہ دکھانا کمانے کی فکر اور دنیا کا سامنا ...
By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar صفحہ نمبر۔۲ Novel انوکھا رشتہ میری یہ بات سن کر دادی جان اور ماں ایک دوسرے کو دیکھ کر اچانک ایک ہی آواز میں ایک ہی لہجے میں کہتی ہیں۔ " نہیں " میں نے ماں اور دادی جان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا: ماں اور دادی جان خاموش ہو گئی۔ اتنے میں عامو اوپر سے آتے ہوئے تیز آواز سے بولی۔ " ماں ، دادی جان ، عانشی میں اُٹھ گئی۔" ہم تینوں ہنس پڑے ، عامو بھاگتی ہوئی آئی اور ہم تینوں کے گلے لگ گئی۔ ماں نے عامو کا کان پکڑ کر کہا: " جلدی اُٹھا کرو ورنہ مار کھاؤ گئی کسی دن میرے سے۔" عامو نے ہلکا سا ماں کو چوما اورکہا: " ماں میں تو آپ کی لاڈلی ہوں نا۔ کیا کروں ماں جتنی دیر میں آپ کی ڈانٹ نہ کھاؤں تو مجھے سکون نہیں ملتا۔" ماں نے ہم دونوں کے ماتھے چومے اور کہا: " تم دونوں تو میری جان ہو ، میرے جگر کے ٹکرے ۔ چلو اب بہت باتیں ہو گئیں ہیں ۔ ہم نے ابھ...
Comments
Post a Comment
Welcome to our site, if you need help simply reply to this message, we are online and ready to help.