Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ
By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar
Novel
میں نے عامو سے کہا:
" عامو ، چلو اب جلدی ، کہیں دیر نہ ہو جائے۔ "
عامو نے جواب دیا:
" میں بلکل تیار ہوں۔ "
ہم دونوں دادی جان اور
ماں کے گلے لگے، عامو نے اپنا بیگ پکڑا میں نے اپنا پرس لیا، گھر سے نکلے
تو سامنے سے زین اور اُس کے دوست چچا انور کی دُکان کے سامنے بیٹھےخالہ سکینہ کی چھوٹی بیٹی روبی کا
مذاق بنا رہے تھے ۔ اصل میں عامو کے ساتھ ساتھ آج شاذیہ کا بھی
کالج میں پہلا دن تھا۔ مذاق وہ اس وجہ سے
بنا رہے تھے کہ روبی کا رنگ تھوڑا کالا
تھا۔ روبی بیچاری کیا کرتی ، لوگوں کی باتیں سُن سُن کر اب وہ تنگ آ گئی تھی
۔ بلکہ لوگوں کی باتوں کا اب
اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ۔ حسنین
کچھ اس طرح باتیں لگا لگا کر کرتا ہے۔
" روبی، جتنی
بھی تعلیم حاصل کر لے ، پھر کون سا تُو نے خوبصورت ہو جانا ہے ۔ نظر تو پھر بھی
تُو کسی کے گھر کی نوکرانی ہی آئے گئی
۔ "
مجھے اور عامو کو حسنین
کی بات سُن کر بہت بُرا لگا بیچاری روبی
کے لئے۔ عامو سخت غصے میں حسنین کے پاس گئی ، تو
حسنین کے دوست زین نے کہا :
" اوہ ! میری جان ، عامیہ کفیل آئی، قسم سے تجھے دیکھنے کے لئے تو میں سارا دن یہاں چچا انور کی دُکان کے سامنے آ کر بیٹھا رہتا
ہوں۔ میں کیا کروں جان ، مجھے تم سے بچپن میں ہی محبت ہوگئی تھی ۔ جب تم بلکل
چھوٹی سی تھی ۔ تم کتنی پیاری تھی ۔ ہائے جان قربان جاؤں چچا
کفیل پے جس نے میرے سے وعدہ کیا تھا ،کہ جب عامیہ بڑی ہو جائے گی ، تب میں خود اس
کی شادی تیرے ساتھ کروں گا۔ "
مجھے بہت غصہ آیا
زین کی بات سُن کر ، میرا دل کیا میں جاؤں اس کمینے کے پاس اور اس کو جان
سے مار دوں ۔ عامو نے غصے سے کھینچ کر منہ
پے ایسا تھپڑ مارا ، کہ زین کو اُس کی نانی یاد آ گئی ہو گی۔ تھپڑ مار کر عامو نے کہا :
" او نکلی ہیرو ،
تیری ایسی کی تیسی ، تُو نے عامیہ کفیل سے
پنگا لیا ہے ۔ بھاگ جا ، ورنہ
تیری ایسی مرمت کروں گی، کہ تُو ساری زندگی یاد رکھے گا۔ تُو مجھ سے محبت
کرتا ہے ، اور میرے سے شادی کرنا چاہتا ہے؟ تُو دنیا کا آخری لڑکا بھی ہوا تو میں
تیرے سے شادی نا کروں ، بلکہ زہر کھا لوں گی۔ ارے جو انسان لڑکیوں کی عزت نہیں
کرتا ، ایسے انسان کو تو ہمارے معاشرے سے
ہی باہر کر دینا چاہیے۔ "
میں نے عامو سےکہا :
" عامو ، اس نکلی ہیرو کو چھوڑو ، ایسے لوگوں کے مُنہ
لگنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ عامو ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔ "
عامو نے کہا :
" نہیں عانشی ، آج ذرہ میں سبق سیکھا ہی دوں اس نکلی ہیرو کو ، یہ
تو روبی ہی ہے جو ان آوارہ لڑکوں کی ایسی باتوں کو نظر انداز کرتی
ہے ۔ میں نہیں کر سکتی۔ "
اتنے میں چچا انور نے زین لوگوں کو کہا :
" مجھے پتا
ہوتا کہ تم لوگ ایسے ہو ،جو اپنے ہی محلے
کی لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں ، تو میں کبھی تم لوگوں کو اپنی دُکان کے سامنے بیٹھنے نا دیتا۔دفعہ ہو جاؤ میری دُکان سے ، اور آج کے بعد تم لوگ یہاں کبھی نظر نا آنا ۔ اگر نظر آئے تو میں پولیس میں تمہاری شکایت کر
دوں گا۔ "
Comments
Post a Comment
Welcome to our site, if you need help simply reply to this message, we are online and ready to help.