Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ
By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar
Novel
زین نے کہا:
" مجھے نا مارو پلیز ، میں آگے سے ایسا کبھی نہیں
کرتا، پلیز مجھے چھوڑ دو۔"
میں نے عامو سے
کہا:
" عامو ، مارو اس کو
، اتنا مارو کہ یہ اپنی آنے والی
نسلوں کو بھی آگاہ کرے ،کہ کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے ۔ ورنہ حال کچھ ایسا ہوتا ہے جس طرح
اب ہو رہا ہے۔"
زین جلدی سے بھاگ گیا ۔ اُس کے دوست تو پہلے ہی مار کے ڈر
سے بھاگ گئے تھے۔ اب میں ، عامو اور شاذیہ تینوں جلدی سے سڑک کے کنارے آ گئے۔ رش بہت زیادہ تھا ۔ عامو نے مجھے کہا:
" عانشی ، رش
تو بہت زیادہ ہے ۔ ہم پہلے سے ہی لیٹ ہو گئے ہیں سب ۔"
ابھی اتنا ہی عامو نے کہا تھا کہ ایک رکشے والا آیا ،اور
رکشے والے نے کہا:
" کہاں جاناں ہے آپی ؟"
میں نے جواب دیا :
" رکشے والے بھائی ، ہم نے چونگی تک جانا ہے۔ "
رکشے والے نے کہا:
" آپی جی ، ایک سواری کی جگہ خالی ہے بس۔"
اتنے میں عامو اور شاذیہ دونوں مجھےکہتیں ہیں۔
" عانشی ، آپ جاؤ ، آپ کا آج پہلا انٹرویو ہے۔ ہمارا کیا
ہے، ہم تو آج کالج جلدی نا بھی پہنچے تو کل چلے جائیں گے۔ "
میں نے کہا:
" نہیں عامو ،
تم لوگوں کا جانا بھی ضروری ہے آج ۔"
عامو اور شاذیہ کے اصرار کرنے پے میں رکشے پے بیٹھ گئی ۔ اب یہاں عامو اور میرے
راستے الگ ہو گئے ۔ میں تھوڑا سا ہی آگے
آئی ۔ کہ ایک انکل جو راستے میں گرے پڑے
ہیں ۔ لوگ آس پاس کھڑے دیکھ رہے ہیں ۔ کوئی بھی ان کے قریب نہیں جا رہا۔ میں نے
رکشے والے سے کہا:
" رکشے والے بھائی ، رکشہ رُوکنا ایک دفعہ ۔ کوئی انکل نیچے زمین پر پڑے ہیں۔
"
رکشے والے نے جواب دیا:
" ارے
آپی جی ، یہاں کافی لوگ ہیں اس
انکل کی مدد کے لئے۔ آپ رہنے دو ، آپ لیٹ ہو جاؤ گی۔ مجھے بھی جلدی جانا ہے ۔ کہیں
سواریاں پریشان یہ ہو جائیں ۔ "
Comments
Post a Comment
Welcome to our site, if you need help simply reply to this message, we are online and ready to help.