Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ

 By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar


صفحہ نمبر۔۷


Novel

   زین نے کہا:

" مجھے نا مارو پلیز ، میں آگے سے ایسا کبھی نہیں کرتا،  پلیز مجھے چھوڑ  دو۔"

میں نے  عامو سے کہا:

" عامو ، مارو اس کو  ، اتنا مارو کہ یہ  اپنی آنے والی نسلوں کو بھی آگاہ کرے ،کہ کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی  نہ دیکھے ۔ ورنہ حال کچھ ایسا ہوتا ہے جس طرح اب ہو رہا ہے۔"

زین جلدی سے بھاگ گیا ۔ اُس کے دوست تو پہلے ہی مار کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔     اب  میں ، عامو  اور شاذیہ  تینوں جلدی سے سڑک کے کنارے آ گئے۔  رش بہت زیادہ  تھا ۔ عامو نے مجھے کہا:

" عانشی ،  رش تو بہت زیادہ ہے ۔ ہم پہلے سے ہی لیٹ ہو گئے ہیں سب ۔"

ابھی اتنا ہی عامو نے کہا تھا کہ ایک رکشے والا آیا   ،اور  رکشے والے نے کہا:

" کہاں جاناں ہے آپی ؟"

میں نے جواب دیا :

" رکشے والے بھائی ، ہم نے چونگی تک جانا ہے۔  "

رکشے والے نے کہا:

" آپی جی ، ایک سواری کی جگہ خالی ہے بس۔"

اتنے میں عامو اور شاذیہ  دونوں  مجھےکہتیں ہیں۔

" عانشی ، آپ جاؤ ، آپ کا آج پہلا انٹرویو ہے۔ ہمارا کیا ہے، ہم تو آج کالج جلدی نا بھی پہنچے تو کل چلے جائیں گے۔ "

میں نے کہا:

" نہیں عامو ،  تم لوگوں کا جانا بھی ضروری ہے آج ۔"

عامو اور شاذیہ کے اصرار کرنے پے میں  رکشے پے بیٹھ گئی ۔ اب یہاں عامو اور میرے راستے الگ ہو گئے ۔  میں تھوڑا سا ہی آگے آئی ۔ کہ ایک انکل  جو راستے میں گرے پڑے ہیں ۔ لوگ آس پاس کھڑے دیکھ رہے ہیں ۔ کوئی بھی ان کے قریب نہیں جا رہا۔ میں نے رکشے والے سے کہا:

" رکشے والے بھائی ، رکشہ رُوکنا  ایک دفعہ ۔ کوئی انکل نیچے زمین پر پڑے ہیں۔ "

رکشے والے نے جواب دیا:

" ارے  آپی  جی ، یہاں کافی لوگ ہیں اس انکل کی مدد کے لئے۔ آپ رہنے دو ، آپ لیٹ ہو جاؤ گی۔ مجھے بھی جلدی جانا ہے ۔ کہیں سواریاں پریشان یہ ہو جائیں ۔ "




Comments

Popular posts from this blog

Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ

زندگی کا سفرZindagi ka Safar

Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ