Novel Anokha Rishta ناول انوکھا رشتہ
By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar
Novel
انوکھا رشتہ
میڈیم نے جواب دیا:
" انشااللہ ! اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔ اور میں آپ کو ایک
بات بتا دیتی ہوں ، ہمارے پرنسپل کے سامنے کوئی بھی بلند آواز میں بات کرے ، اُن
کو اچھا نہیں لگتا ، باقی وہ دل کے بہت اچھے ہیں ۔ وہ جس طرح سے بھی بات کریں ، آپ
کا بس ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ اور بلند آواز میں آپ نے بات نہیں کرنی ۔"
میں نے کہا:
" جی ٹھیک ہو گیا ، انشا اللہ ! میں اپنی طرف سے اچھا
کروں گی ،باقی جو اللہ کو منظور ہوا ، ہو جائے گا۔"
میڈیم نے ہنس کر
کہا:
" جائیں پلیز، بیسٹ آف لک۔"
میں نے جواب میں کہا:
" شکریہ میڈیم جی! "
اب میں نروس محسوس کر رہی تھی ، ایسا لگ رہا تھا کہ میں
ابھی گرنے ہی والی ہوں۔
پر میں نے خود کو کندے پر ہاتھ
مارا اور کہا:
" عانشہ کفیل ہمت کر اور آگے بڑھ ۔"
خود کو حوصلہ دینے میں بھی
اپنا ہی مزہ ہے ۔ میں نے دفتر کے
دروازے کو نوک کیا ، دروازہ کھولا ، اجازت
لی ، اندر چلی گئی۔ سب سے پہلے میں نے
سلام بلایا۔ پرنسپل سر کا چہرا دوسری طرف
تھا ، تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دینے کے لیے کرسی کا رُخ بدل کر جواب کچھ
یُوں دیا۔
" وا سلام ! آپ اتنی لیٹ کیسے،،،،،، "
کیسے کے الفاظ اُن کے منہ میں اٹک کر رہ گئے ہوں ، اور ایک
دم سے بولے :
" تم! "
میں نے جب اُن کا چہرا دیکھا تو ،میں نے بھی حیران ہو کر کہا:
" آپ ! "
میں یہ دیکھ کر حیران ہو گئی ، یہ وہی لڑکا تھا جو کچھ دیر
پہلے گاڑی میں سے اُترا تھا ۔ میں اُسے
پرنسپل کی سیٹ پر دیکھ کر حیران رہ گئی ، اب مجھے غصہ سا آنے لگا ، پر میں نے خود کو بہت مشکل سے
روکا ۔ میں نے کہا:
" مجھے آپ کے پاس جاب نہیں کرنی ، آپ کو تو پتا نہیں
ہے کہ کس طرح بات کرتے ہیں کسی سے۔"
اُس سے کہا:
" جاؤ ،جاؤ ، تم جیسی لڑکی کو میں جاب پر رکھنا بھی
نہیں چاہتا، پتا نہیں تم خود کو سمجھتی کیا ہو ، تم نے اتنی باتیں مجھے پہلے سنا
دی ہیں ، اب میں تمھاری ایک بھی بات نہیں سنوں گا۔"
میں نے زور سے دروازہ
بند کیا اور باہر نکل آئی ، باہر آتے ہی
میں اُسی ٹیچر سے ٹکرا گئی جو مجھے پہلے ملی تھی۔ میں نے اُن سے کہا:
" ایسا ہے آپ لوگوں کا پرنسپل ، جس کو بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے۔ "
صفحہ نمبر۔۱۴
By: Prof. Sardar Ali Nawaz Anwar
Comments
Post a Comment
Welcome to our site, if you need help simply reply to this message, we are online and ready to help.